Monday 21 October 2019

طلاق کیوں ہوئی...؟؟؟ || معاشرے کی ایک تلخ حقیقت

یہ تحریر آج کل کی تمام لڑکیوں کے نام😭پڑھو😭 اور سمجھو

ایک بات میں نے بطورِ خاص نوٹ کی کہ محترمہ کے ہاتھ میں ڈیڑھ لاکھ والا آئی فون تھا


پچھلے سال کی بات ہے، ایک دوست گول بازار سرگودها شاپنگ کر رہے تھے۔ ان کی بیٹی کا فون آیا کہ ابو آپ کے داماد نے مجھے فارغ کر دیا، علیحدگی دے دی ہے۔ فوراً آئیں اور مجھے لے جائیں۔

بیٹی کی یہ بات سن کر وه دوست بائیک دوڑاتا گھر کو واپس چلا۔ ان ہی سوچوں میں گم ہوگا کہ راستے میں چلتی بائیک پر ہارٹ اٹیک ہوا، بجلی کے پول سے ٹکرایا اور وہیں سڑک پر جان دے دی۔

بظاہر یہ بات اتنی سی ہے کہ ہارٹ اٹیک ہوا اور بنده فوت ہوگیا۔ وقت مقرر تھا۔ لیکن نہیں۔ میں نہیں مانتا۔

کوئی بات تو تھی جو ایک اچهے بھلے صحت مند آدمی کی اچانک موت کا باعث بنی۔ اس میں کہیں نہ کہیں تو انسانی غلطی نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہوگا۔

علیحدگی کے کچھ دن بعد میں بچی سے ملا اور پوچھا کہ بی بی تین بچوں کے ساتھ خاوند نے جو تمھیں چھوڑ دیا، کیا بات ہوئی تھی؟ تمھارا فرسٹ کزن بھی تو تھا۔

اس بیٹی نے جو بھی وجہ بتائی وه مجھے سمجھ نہیں آئی۔ الزامات کی ایک لمبی فہرست تھی۔ لیکن وه صاحبزادی مجھے کہیں بھی یہ نہ بتاسکی کہ معاملات کی بہتری کے لیے خود اس نے کیا کیا؟

ایک بات میں نے بطورِ خاص نوٹ کی کہ محترمہ کے ہاتھ میں ڈیڑھ لاکھ والا آئی فون تھا۔

مرحوم دوست میرے رشتے دار بھی تھے۔ ان کا سابقہ داماد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایک محترم ادارے میں سکول ٹیچر ہے۔ چند دن بعد میں بطور خاص اسے ملنے گیا۔ پوچھا کہ جوان تم جو اتنی انتہا پر پہنچے، اپنے بچے تک چھوڑ دیے، کیا تمھیں بچے پیارے نہ تھے؟ ہوا کیا تھا؟ کس بات نے تمھیں اتنا مجبور کیا؟

وه بولا کہ سر، میری دو سالیاں ہیں۔ دونوں انتہائی امیر گھروں میں بیاہی ہوئی، کوٹھیوں کاروں اور نوکر چاکروں والی۔ جب بھی میری بیوی اپنی بہنوں کو مل کر آتی، میرے گھر جھگڑا شروع ہوجاتا۔ مجھے بات بات پر غریبی کے طعنے ملتے۔ میں چالیس ہزار ماہانہ کا ملازم ہوں۔ جتنا کرسکتا تھا انتہائی حد تک کیا، لیکن اب بات برداشت سے باہر تھی۔

اس نے مزید کہا کہ مجھے اپنی بیوی بہت پیاری تھی۔ میرے پاس تین ہزار والا موبائل ہے، بیگم کو میں نے آئی فون لے کر دیا۔ پھر کار کا مطالبہ ہوا۔ میں نے بنک لون سے کار لے کر دی۔ پرانا فریج بیچ کر قسطوں پر فل سائز نیا فرج لیا۔ پھر اے سی کا کہا گیا۔ وہ لے کر دیا۔ اس سب کے باوجود طعنے ہی طعنے۔ میں اپنی نظر میں ہی حقیر بن چکا تھا۔

علیحدگی والے ماه بجلی کا بل تیس ہزار آگیا۔ چالیس ہزار کل تنخواه میں سے میں کیا کرتا؟ دس ہزار تو صرف ماہانہ دودھ کا بل بنتا تھا۔ اوپر سے بیگم کی فضول کی باتیں۔ میں پہلے ہی بیگم کی پچھلی لامحدود خواہشات سے تنگ تھا۔ بالکل ناک میں دم آچکا تھا۔ فوری جھگڑا اس بل پر ہوا اور بات اس انتہا تک پہنچی۔ یہ بات کرتے کرتے وه رو پڑا۔

ساری بات سن کر میں نے سر جھکا لیا اور گھر واپس آگیا۔ اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو، اپنے بیٹوں کو، کم سے کم خواہشات کے ساتھ زنده رہنا بتایا ہے۔

اس وقت وه علیحدگی یافتہ بیٹی اپنے شادی شده بھائی کے تین مرلہ مکان کے اوپر والے ایک کمرے میں ره رہی ہے۔ جب بجلی بند ہو تو اس کمرے میں بنده ایسے ہوجاتا ہے جیسے بھٹی میں دانے بھنتے ہیں۔ نہ اوپر واش روم ہے اور نہ کچن۔ بچے نیچے جائیں تو ان کی ممانی تھپٹر لگاکر اوپر واپس بھگا دیتی ہے۔

گوری چٹی اور سرخ و سفید چھبیس سالہ لڑکی صرف ایک سال میں پچاس سال کی اماں نظر آتی ہے۔ سنا ہے کسی پرائیویٹ سکول میں نو دس ہزار کی نوکری بھی شروع کر دی ہے۔

Tags: Heart Touching Stories, Tallaq Yafta Larki, Dil Ko Choo Lene Wali Tehreer, Tallaq Kyun Hui, Urdu Stories, Read Urdu Stories, Urdu Kahani, Read Stories Online, Sabaq Amoz Kahaniyaan, Sachi Kahani, Read Stories Online, Free Online Stories, Latest Urdu Stories, Best Urdu Stories, New Urdu Stories, Mother Stories, Maan ki Kahani, Story of a Mom, Story of Son

No comments:

Post a Comment

Leave Your Valuable Feedback Here