Sunday 16 August 2020

ایک وہ وقت بھی تھا جب دوکاندار کے پاس کھوٹا سکا چلا دینا ہی سب سے بڑا فراڈ سمجھا جاتا تھا

😥!!!....کاش وہ دن اور زمانہ پھر سے لوٹ آ ئے😓

محلے کی جس لڑکی کی شادی ہوتی تھی بعد میں پورا محلہ باری باری میاں بیوی کی دعوت کرتا تھا۔

ایک وہ وقت بھی تھا جب دوکاندار کے پاس کھوٹا سکا چلا دینا ہی سب سے بڑا فراڈ سمجھا جاتا تھا🤔۔ 

...یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب

٭ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آکر اپنے باپ کو نہیں بتاتا تھا۔ اور اگر بتاتا تو باپ اْسے ایک اور تھپڑ رسید کردیتا تھا ۔❤👍🤔

٭یہ وہ دور تھا جب ’’اکیڈمی‘‘ کا کوئی تصّور نہ تھا اور ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے شمار ہوتے تھے🤔۔

٭بڑے بھائیوں کے کپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی👍❤۔

٭لڑائی کے موقع پر کوئی ہتھیار نہیں نکالتا تھا۔ صرف اتنا کہنا کافی ہوتا ’’میں تمہارے ابا جی سے شکایت کروں گا۔‘‘ یہ سنتے ہی اکثر مخالف فریق کا خون خشک ہوجاتا تھا۔

٭اْس وقت کے اباجی بھی کمال کے تھے۔ صبح سویرے فجر کے وقت کڑکدار آواز میں سب کو نماز کے لیے اٹھا دیا کرتے تھے۔ بے طلب عبادتیں کرنا ہر گھرکا معمول تھا۔

٭کسی گھر میں مہمان آجاتا تو اِردگرد کے ہمسائے حسرت بھری نظروں سے اْس گھر کودیکھنے لگتے اور فرمائشیں کی جاتیں کہ ’’ مہمانوں ‘‘ کو ہمارے گھر بھی لے کرآئیں۔ جس گھر میں مہمان آتا تھا وہاں پیٹی میں رکھے فینائل کی خوشبو ملے بستر نکالے جاتے۔ خوش آمدید اور شعروں کی کڑھائی والے تکئے رکھے جاتے۔ مہمان کے لیے دُھلا ہوا تولیہ لٹکایا جاتا اورغسل خانے میں نئے صابن کی ٹکیا رکھی جاتی تھی۔

٭جس دن مہمان نے رخصت ہونا ہوتا تھا۔ سارے گھر والوں کی آنکھوں میں اُداسی کے آنسو ہوتے تھے۔ مہمان جاتے ہوئے کسی چھوٹے بچے کو دس روپے کا نوٹ پکڑانے کی کوشش کرتا تو پورا گھر اس پر احتجاج کرتے ہوئے نوٹ واپس کرنے میں لگ جاتا۔ تاہم مہمان بہرصورت یہ نوٹ دے کر ہی جاتا۔

٭شادی بیاہوں میں سارا محلہ شریک ہوتا تھا۔ شادی غمی میں آنے جانے کے لیے ایک جوڑا کپڑوں کا علیحدہ سے رکھا جاتا تھا جو اِسی موقع پر استعمال میں لایا جاتا تھا۔ جس گھر میں شادی ہوتی تھی اْن کے مہمان اکثر محلے کے دیگر گھروں میں ٹھہرائے جاتے تھے۔ محلے کی جس لڑکی کی شادی ہوتی تھی بعد میں پورا محلہ باری باری میاں بیوی کی دعوت کرتا تھا۔

٭کبھی کسی نے اپنا عقیدہ کسی پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی۔ کبھی کافر کافر کے نعرے نہیں لگے۔ سب کا رونا ہنسنا سانجھا تھا۔ سب کے دْکھ ایک جیسے تھے ۔

٭نہ کوئی غریب تھا نہ کوئی امیر ، سب خوشحال تھے۔ کسی کسی گھر میں بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی ہوتا تھا اور سارے محلے کے بچے وہیں جاکر ڈرامے دیکھتے تھے۔

😢…
😢کاش وہ دن اور زمانہ پھر سے لوٹ آ ئے"😓

اس طرح کے مزید اچھے اور بہترین تحریروں کے لئے فالو کریں شکریہ

Tags: Heart Touching Stories, Purana Zamana, Naya Zamana, Dil Ko Choo Lene Wali Tehreer, Old Time vs New Time, Urdu Stories, Read Urdu Stories, Urdu Kahani, Read Stories Online, Sabaq Amoz Kahaniyaan, Sachi Kahani, Read Stories Online, Free Online Stories, Latest Urdu Stories, Best Urdu Stories, New Urdu Stories, Islamic Stories, Story of Arab Girls, Ashfaq Ahmed ki Kahani, Beti ki Kahani, Bevi ki Kahani, Baap ki Kahani, Shohar ki Kahani, Father Stories, Daughter Stories, Real Stories

No comments:

Post a Comment

Leave Your Valuable Feedback Here